16

سابق وزیر اعظم عمران خان کی اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت

اڈیالہ جیل میں آج میرا ایک سال پورا ہو گیا ہے ۔ان کا خیال تھا کہ یہ ٹوٹ جائے گا اور چکی میں نہیں رہ سکے گا ۔ میں 21 سے 22 گھنٹے چکی میں رہتا ہوں ۔گرمیوں کے دنوں میں اتنا پسینہ آتا تھا کہ جو کپڑے پہنتا تھا وہ بھی مسلسل گیلے رہتے تھے ۔جیل عملے نے کہا کہ خان صاحب کپڑے بدل لیں یہ پھٹ جائیں گے ۔ان کو پتہ ہی نہیں کہ ایک سپورٹس مین کی ٹریننگ کیا ہوتی ہے ۔سپورٹس مین کی ٹریننگ ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہرطرح کے دباؤ میں رہنے کا عادی ہوتا ہے ۔ ایک سپورٹس مین اپنے جسم کو ہر طرح کا سٹریس دے کر تیار کرتا ہے اور میں نے جس طرح کی سخت دماغی اور جسمانی ٹرینگ سے خود کو گزارا ہوا ہے اس نے مجھے ہر طرح کی سخت جسمانی اور دماغی تکلیف کے لیے تیار کیا ہوا ہے اور میں کسی دباؤ اور تکلیف سے گھبرانے والا نہیں ہوں۔

کسی بھی ملک کو تباہ کرنے کے لیے ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ادارے اور اخلاقیات جب تک تباہ نہیں ہوتے ملک تباہ نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو جاپان آج ترقی کر کے یہاں نہ پہنچا ہوتا۔ جاپان پر دو ایٹم بم گرے 10 سال میں وہ دوبارہ کھڑا ہو گیا کیونکہ جاپان کے ادارے تباہ نہیں ہوئے تھے ۔

ایکسٹینشن مافیا ناجائز توسیع لینا چاہتا ہے ۔گینگ آف تھری مافیا اپنی توسیع کے لیے ملک کے مستقبل کو تباہ کر رہا ہے ۔حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا خلاصہ ہے کہ ایک آدمی یعنی یحی خان نے اپنی ذاتی طاقت کو بڑھانے کے لیے ملک کی جمہوریت کو تباہ کر دیا تھا ۔ہ ملک کو اس وقت اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور ہم دنیا بھر میں ذلیل ہوئے ۔ ہمارے 90 ہزار فوجی قیدی بنے اور 50 ہزار پاکستانیوں کو قتل کیا گیا ۔حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کئی دہائیوں تک چھپائی گئی۔کمیشن رپورٹ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس سے سبق سیکھو ۔

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔قاضی فائز عیسیٰ ان کا ایک کھلاڑی اور سکندر سلطان راجہ دوسرا کھلاڑی ہے۔تھرڈ امپائر ان کا کپتان ہے جو سارا کچھ کنٹرول کر رہا ہے ۔قاضی فائز عیسٰی ہم پر ہونے والے ظلم کو تحفظ دیتا رہا ہے ۔ بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فرض تھا کہ وہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ۔ملک میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور قاضی فائز عیسیٰ اس سب پر خاموش ہے ۔ ہمارے 8 فروری کے کیس کو آج تک قاضی فائز عیسیٰ نے نہیں سنا۔ ہم نے متعدد بار قاضی فائز عیسیٰ سے استدعا کی کہ 9 مئی پر کمیشن بنائیں لیکن آج تک 9 مئی کی تحقیقات کے لیے کمیشن نہیں بنا۔ جس بھی کیس میں پاکستان تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ اس پر صاف اور شفاف تحقیق کے لیے کمیشن بنایا جائے ، قاضی فائز عیسیٰ نے اس کی مخالفت کی اور جو طاقتیں تحریک انصاف کو نقصان پہنچا رہی تھیں اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں میں ملوث تھیں قاضی فائز عیسیٰ نے ان کو تحفظ فراہم کیا۔

ٹرائل کے بغیر ہمارے لوگ 16 ماہ سے جیلوں میں قید ہیں ۔محمود الرشید اور اعجاز چوہدری بیماری کے باوجود جیلوں میں قید ہیں ۔قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بھی جوڈیشل انکوائری نہیں کروائی۔مغربی طاقتیں فلسطین میں سیز فائر اس لیے نہیں کروا رہیں تاکہ فلسطینیوں کو پہلے کرش کیا جا سکے ۔یہ لوگ بھی انتظار کرتے رہے کہ الیکشن سے پہلے ہم کرش ہو جائیں گے لیکن پھر 8 فروری کا الیکشن آ گیا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک ایسی جماعت الیکشن میں واضح برتری حاصل کرے گی جس کو الیکشن لڑنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ عوام نے جس طرح 8 فروری کو خاموش انقلاب برپا کیا ہے ، اس نے ان کے حوصلے بری طرح پست کیے ہیں ۔ آئینی اور قانونی طور پر جیتی ہوئی پارٹی کو اقتدار ملنا چاہیے تھا ۔ لیکن یہاں الٹا ہمارے دفاتر پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں تحفظ فراہم کیا ہوا ہے ۔آئینی ترامیم قاضی کی توسیع کے لیے ہیں ۔ قاضی فائز عیسیٰ کو بیکری میں جس نے ذلیل کیا اس کے بارے میں سامنے آ رہا ہے کہ اسے اٹھا لیا گیا ۔ان کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور شرم آنی چاہیئے۔انسانوں کے معاشرے کو ڈنڈے سے نہیں اخلاقیات سے چلایا جاتا ہے ۔

190 ملین پاؤنڈ کا جو ہم پر کیس بنا دیا گیا اس پر ابھی تک 20 ارب کا منافع ہو چکا ہے۔ یہ آج تک ثابت نہیں کر سکے کہ وہ غیر قانونی یا ناجائز پیسہ تھا۔ القادر ٹرسٹ سے مجھے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا نہ ہونا ہے۔ 350 سو کنال اراضی القادر ٹرسٹ اور 1000 کنال اراضی نمل یونیورسٹی کی ہے ۔القادر یونیورسٹی کے لیے زمین ملک ریاض نے ٹرسٹ کو عطیہ کی۔ اگر ٹرسٹ نہیں چلتا تو زمین واپس ڈونر کو چلی جاتی ہے-

35 سے فلاحی ادارے چلا رہا ہوں- شوکت خانم ہسپتال کے لیے ہر سال 10 ارب روپے اکھٹے ہوتے ہیں۔ کسی بھی فلاحی ادارے سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے – نواز شریف اور زرداری 40 سال تک اقتدار میں رہے انہوں نے کوئی ٹرسٹ کیوں نہیں بنایا؟

روؤف حسن دو تین مرتبہ جیل میں ملنے آئے تھے لیکن ان کو ملنے نہیں دیا گیا۔ 8 ستمبر کے جلسے کے بعد واضح کرچکا ہوں کہ ہم کسی سے کوئی مزاکرات نہیں کرینگے۔اسٹیبلشمنٹ کے لوگ دائیاں دکھا کر بائیاں مارتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور سمیت تمام لیڈر شپ کو ہدایات ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ باجوہ کے دور سے یہ ہمیں کہتے آئے ہیں کہ نیوٹرل کی بات نہ کرو ۔جتنا ہم پیچھے ہٹتے ہیں اتنا یہ ہمیں کرش کرتے ہیں۔ یہ پورے ادارے کی نہیں بادشاہ کی پالیسی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ سے میری کوئی جان پہچان نہیں۔ تیس دن رہ گئے ہیں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس ٹقرری کا اعلان ہو جانا چاہیئے ۔ آئین بھی یہی کہتا ہے کہ سینیئر ترین جج چیف جسٹس ہوگا ۔ قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کا تین ماہ پہلے اعلان کیا گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو دھمکیاں ملی ہیں اس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کیا کیا؟ قاضی فائز عیسی تو نیوٹرل نظر آنے کی کوشش بھی نہیں کرتا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں